حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ رحمت اور دورِ جدید

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خصوصی علمی و تحقیقی خطاب

ترتیب و تدوین محمد یوسف منہاجین
معاون محمد خلیق عامر

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا

وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ.

’’اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر‘‘

(الانبیاء 107)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کے لاتعداد گوشے ہیں جن کا احاطہ انسانی عقل نہیں کر سکتی۔ اس رحمت کا دائرہ کار صرف انسانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ تمام عالمین کو محیط ہے۔ عالم انسانیت، عالم جنات، عالم نباتات، عالم حیوانات، عالم جمادات الغرض ہر عالَم جو ہمارے علم میں ہے اور جو ہمارے علم میں نہیں ہے، آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کاملہ ہی سے فیض پارہا ہے اور آپ ہی کے صدقے قائم و دائم ہے۔ دورِ جدید میں جہاں ہر طرف سائنس و ٹیکنالوجی کی ایجادات کی بھرمار ہے، یہ بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ رحمت ہی کی بدولت آج انسانیت کے لئے سہولیات و آسائشات فراہم کرنے کے قابل ہے۔ اس لئے کہ آج عالم انسانیت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے رکھی گئی تعلیمی و علمی بنیادوں پر اپنی کامیابیوں کی عمارات قائم کئے ہوئے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے قبل پوری دنیا جہالت میں ڈوبی ہوئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہالت سے بھری دنیا میں جدید علم اور سائنسی تحقیقات کا دروازہ کھولا۔ لہذا یہ بات قطعی ہے کہ آج انسانیت سائنسی ترقی کے جس مقام پر پہنچی ہے اُس کا دروازہ کھولنے والے تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ گویا دنیا کو آج علم کی روشنی اور سائنسی تحقیقات کے ذریعے مختلف ایجادات بھی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت سے ملی ہیں۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اُمّی (ان پڑھ) قوم میں علم کی بنیاد رکھی۔ اس سوسائٹی کو تعلیم و تربیت سے آراستہ کیا اور وہاں تعلیم کو ایک نظام کی صورت میں باقاعدہ رواج دیا جہاں علم کا کلچر نہیں تھا۔

آج جب ہم علم کی بات سنتے ہیں تو اس میں ہمارے لیے کوئی تعجب نہیں ہے، اس لئے کہ ہم ایک تعلیم یافتہ معاشرے میں ہیں، جہاں ہر طرف علم اور سائنس کا کلچر ہے۔ آج سے چودہ سو سال پیچھے چلے جائیں تو وہاں عالم یہ تھا کہ لوگ پانی پینے پلانے پر قتل کرتے، صدیوں تک جنگیں چلتی رہتیں، بچی پیدا ہوتی تو اُسے زندہ درگور کر دیتے۔ عورتوں، غلاموں، غریبوں اور کمزوروں کے کوئی حقوق نہیں تھے۔ قبائلی جنگیں تھیں۔ معاشرے میں کوئی نظام نہیں تھا۔ امن و امان نہیں تھا۔ دہشتگردی، قتل و غارت گری اور خون خرابہ عام تھا۔ اس معاشرے میں لکھنا پڑھنا کوئی نہیں جانتا تھا۔ امام بلاذری نے فتوح البلدان میں لکھا ہے کہ مکہ جیسے شہر میں صرف 15 آدمی ایسے تھے جو لکھنا جانتے تھے۔ گویا ان حالات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت علم کا دروازہ کھولا کہ جب کوئی علم، سائنس اور ٹیکنالوجی کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔

اس موضوع پر تفصیلات کے لئے راقم کی زیرِ طبع کتاب (Muhammad The Peacemaker کا مطالعہ کریں) اس کتاب میں ایک باب اس موضوع پر بھی ہے کہ کس طرح آقا علیہ السلام نے انسانیت پر احسان کرتے ہوئے تعلیم کا باقاعدہ نظام اس معاشرے میں نافذ کیا اور تعلیم کو اتنی ترجیح دی کہ غزوئہ بدر کے 70 قیدی (کفار و مشرکین) جن کے پاس رہائی کے پیسے نہیں تھے، انہیں فرمایا کہ جو میرے شہر مدینہ کے 10، 10 بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھا دے گا اُس کو بغیر فدیہ کے آزاد کر دیا جائے گا۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تعلیم کے حصول کی اس قدر حوصلہ افزائی کی کہ مال و دولت کے حصول پر بھی تعلیم کو ترجیح دی۔

حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے غزوہ بدر کے قیدیوں سے پڑھا، میں بھی انہی میں سے ایک ہوں۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ اصحابِ صفہ کو لکھنا پڑھنا سکھانے کے لئے باقاعدہ ماہر تعلیم کے طور پر مقرر ہوئے۔ آقا علیہ السلام نے الصفہ کی شکل میں ایک تعلیمی و تربیتی مرکز قائم فرمایا۔ یہ ایک boarding school کی مانند تھا کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین رات دن وہاں رہتے اور پڑھائی کرتے۔ آقا علیہ السلام نے day scholars کو بھی اجازت مرحمت فرمائی کہ وہ لوگ جن کے پاس تھوڑا ٹائم ہو وہ بھی آ کر یہاں تعلیم حاصل کریں۔ لہذا کئی صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین مستقل الصفہ پر ہی سکونت پذیر تھے اور کئی صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنی دیگر معاشرتی و معاشی ذمہ داریوں سے فراغت کے بعد یہاں آتے اور تعلیم و تربیت کے مراحل سے گزرتے۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تعلیم کے نظام کی اس حد تک حوصلہ افزائی فرمائی۔ اس عظیم علمی و روحانی درسگاہ ’’صفہ‘‘ سے کم و بیش 700 سے 1000 صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اکتساب علم کیا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حصول علم کی اتنی سرپرستی فرمائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دور دراز کے علاقوں میں موجود دوسرے قبائل کی طرف معلمین و اساتذہ بھیجتے۔ حتیٰ کہ نجد کے ایک علاقے کی طرف مختلف قبائل کے لیے اکٹھے ایک بار 70 اساتذہ بھی روانہ فرمائے۔

آج سے چودہ سو سال قبل تعلیم اور شرح خواندگی (literacy rate) کو بلند کرنے اور علم کے حصول کا کوئی تصور نہیں تھا۔ اس ماحول میں آقا علیہ السلام نے مدینہ منورہ کی مختلف مساجد میں 9 سکول قائم فرمائے۔ اس وقت مدینہ منورہ چھوٹا سا گاؤں تھا۔ ایک چھوٹے سے گاؤں اور علاقے میں موجود 9 مسجدوں کے ساتھ سکولز قائم کرنا اور علم کے کلچر کو عام کرنا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوی فراست ہی کا خاصہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لکھنے کا باقاعدہ ایک سرکاری شعبہ قائم فرمایا جہاں ہر چیز کے تحریری کاغذات (written documents) تیار کیے جاتے۔ آقا علیہ السلام نے خود 229 خطوط مختلف بادشاہوں اور قبائل کے سرداروں کو روانہ فرمائے۔ اس طرح آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف معاہدات تحریر فرمائے۔ 225 سرکاری و سفارتی دستاویزات (official & diplomatic documents) روانہ کئے۔ یعنی آقا علیہ السلام نے تقریباً 500 سے 1000 تک سرکاری خطوط، معاہدات، دستاویزات تحریری صورت میں روانہ فرمائیں۔ گویا ہر چیز لکھ کو ضابطہ تحریر میں لانے (documentation) کا کلچر پیدا کیا۔

سرکاری خطوط پر مہریں (stamps) لگانے کو بھی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رواج دیا تا کہ پتہ چلے کہ یہ سرکاری دستاویز (official document) ہے، جعلی نہیں ہے۔ اس مہر لگانے کی ابتدا بھی آقا علیہ السلام نے کی۔ اس سے پہلے stamp کرنے کا کلچر نہیں تھا۔

اسی طرح خاص خاص موضوعات میں تخصص (specialization) کا عمل بھی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شروع کروایا۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا جو قرآن میں تخصص (specialize) کرنا چاہے وہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس جائے، جو قانون (law) سمجھنا چاہے وہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے پاس جائے۔ جو فرائض اور وراثت کو سمجھنا چاہے وہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس جائے۔جو خزانے، حساب و کتاب اور مالیات (finance, accounting) کا علم سمجھنا چاہے وہ میرے پاس آئے۔

سیدنا مولیٰ علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا

جو کائنات کا سب کچھ سمجھنا چاہے وہ میرے پاس آئے۔

اسی طرح آقا علیہ السلام نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو غیر ملکی زبانیں سیکھنے کی تراغیب اور احکامات بھی ارشاد فرمائے تاکہ عالمی سطح تک علم فروغ پائے اور ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملے۔ اس سے ایک طرف تعلیم کی تحریک (knowledge movement) قائم ہوئی اور دوسری طرف مختلف تہذیبوں اور معاشروں (communities, civilizations) کے ساتھ روابط و تعلقات بھی قائم ہوسکے۔ یوں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسری زبانوں کو پڑھنے و سیکھنے کا آغاز فرمایا۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ آقا علیہ السلام کے چیف سیکرٹری بنے، انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر سریانی و عبرانی زبانیں سیکھیں۔ اس طرح دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے فارسی، ایتھوپین، شامی، یونانی اور اس وقت کی عالمی طاقتوں اور دیگر اقوام کی زبانیں سیکھیں۔

’’صفہ‘‘ پر صحابہ کو صرف قرآن اور حدیث نہیں بلکہ law (قانون)، theology (عقیدہ)، morality (اخلاقیات)،سوشیالوجی، ریاضی، (طب) medicine، (علم الفلکیات) astronomy، زراعت، تجارت، کامرس اور (امور خارجہ) foreign policy بھی پڑھائی جاتی تھی۔

مذکورہ بالا تمام علوم و فنون کا ذکر امام احمد بن حنبل کی المسند میں، امام ابوداؤد کی السنن میں، امام ترمذی کی الجامع میں، امام مالک کی الموطا میں، امام حاکم کی المستدرک میں اور حافظ ابن حجر عسقلانی کی الاصابہ میں موجود ہے۔ ان سب کتب حدیث سے ان تمام علوم و فنون کو جمع کر کے میں نے بیان کر دیا۔ یہ تمام مضامین صحابہ کرام کو پڑھائے جاتے تھے اور وہ ان علوم و فنون کے ماہر ہوتے تھے۔

اسی طرح آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواتین کی تعلیم کا آغاز بھی فرمایا۔ خواتین کو گھروں میں تعلیم دینے کا اہتمام کیا جاتا۔ ازواج مطہرات کے گھروں میں علمی حلقے (study circles) ہوتے۔ لکھنا پڑھنا سکھانے کے لئے صحابیات مقرر تھیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ آقا علیہ السلام نے خواتین کو تعلیم دینے کے لیے باقاعدہ دن مقرر فرما رکھے تھے، جن میں خواتین کو پڑھنے پڑھانے کا فن (art of teaching & reading) سکھایا جاتا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا شاعری، طب، قانون، تاریخ اور human sciences کی ماہر تھیں۔ ان امور کے متعلق صحیح بخاری، مسند احمد بن حنبل اور ابن عبدالبر کی الاستیعاب میں تفصیل موجود ہے۔

آقا علیہ السلام نے فرمایا

ثَلَاثَةٌ یُؤْتَوْنَ أَجْرَهُمْ مَرَّتَیْنِ! الرَّجُلُ تَکُونُ لَهُ الْأَمَةُ فَیُعَلِّمُهُا فَیُحْسِنُ تَعْلِیمَهَا وَیُؤَدِّبُهَا فَیُحْسِنُ أَدَبَهَا.

’’تین آدمی ایسے ہیں جنہیں دوگنا ثواب دیاجاتا ہے۔ اول وہ شخص جس کی کوئی خادمہ ہو، وہ اُسے احسن طریقے سے تعلیم دے، اسے ادب سکھائے اور ادب سکھانے میں بھی احسن طریقہ اختیار کرے‘‘

(بخاری، الصحیح، کتاب الجهاد والسیر، بَاب فَضْلِ مَنْ أَسْلَمَ مِنْ أَهْلِ الْکِتَابَیْنِ، 3 1096، رقم 2849)

یعنی بیٹوں کو پڑھانے کا بھی اجر ہے مگر جو بیٹیوں اور بچیوں کو پڑھائے گا اُس کو دوہرا اجر ملے گا۔

اسی طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تعلیم کے فروغ کی ذمہ داری اسلامی ریاست میں مرکز کے سپرد بھی کی اور صوبوں کو بھی اس ضمن میں ذمہ دار ٹھہرایا۔ صوبوں کے اندر باقاعدہ نظام تعلیم جاری کیا اور گورنرز کو ذمہ دار ٹھہرایا کہ وہ دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ inspector general of education بھی ہوں گے اور اپنے ماتحت تمام شہروں کے دورہ جات کریں گے اور وہاں تعلیم کے فروغ کے لئے اقدامات بجا لائیں گے۔ حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ جب گورنر یمن مقرر ہوئے تو اُن کو تعلیم کی وزارت بھی ساتھ دی گئی اور وہ تعلیمی امور کے ذمہ دار بھی تھے۔ الغرض نظام تعلیم کے باقاعدہ قیام اور تعلیم کے فروغ کے حوالے سے آقا علیہ السلام نے اس قدر اہتمام فرمایا۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف حصول تعلیم کی طرف متوجہ کیا بلکہ صاحبانِ علم کی فضیلت و انفرادیت کو بھی مختلف مقامات پر بیان فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

إِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِیَاءِ.

’’صاحبانِ علم انبیاء کے وارث ہوتے ہیں‘‘

(ابن حبان، الصحیح، 1 289، رقم 88)

علم کو آقا علیہ السلام نے اتنا اونچا درجہ دیا کہ صاحبانِ علم کی وراثت علم کو قرار دیا کہ اللہ کا نبی وراثت میں درہم و دینار نہیں چھوڑتا بلکہ اس کی وراثت علم ہوتی ہے۔ فرمایا

إِنَّمَا وُرِّثُوا الْعِلْمَ، فَمَنْ أَخَذَ بِهِ أَخَذَ بِحَظٍّ وِافِرٍ.

یعنی جو علم حاصل کرے وہ نبی کا وارث بنتا ہے اور اس طرح وہ نبی کی وراثت میں سے بہت کچھ پالیتا ہے۔

(دارمی، السنن، 1 110، رقم 342)

عرفِ عام میں جب ہم لفظ ’’علماء‘‘ سنتے ہیں تو ہمارے ذہن میں مساجد کے ائمہ، خطباء، علامہ صاحبان اور شیوخ کا image ابھرتا ہے جبکہ عربی میں ’’علماء‘‘ سے مراد صاحبانِ علم ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علم کے کلچر کو اتنا فروغ دیا کہ فرمایا

أُطْلُبُوْا الْعِلْمَ وَلَوْ کَانَ بِالصِّیْنِ.

’’علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین کیوں نہ جانا پڑے‘‘

(ربیع، المسند، 1 29، رقم 18)

جب علم کے حصول کا کوئی تصور نہ تھا اور لکھنا پڑھنا معیوب سمجھا جاتا تھا اُس دورِ جاہلیت میں علم کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اتنا emphasis کیا کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

سائنسی علوم کی بنیاد

آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف عمومی علم کے فروغ کے لئے ہی اقدامات اور ارشادات نہ فرمائے بلکہ سائنسی علوم (scientific knowledge) کی بھی بنیاد رکھنے والے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہیں۔ آج مغربی دنیا جن سائنسی تحقیقات پر فخر اور ناز کرتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس علم کا دروازہ بھی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھولا۔ ذیل میں چند احادیث کا تذکرہ کیا جارہا ہے جن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سائنسی علوم کا ذکر فرمایا ہے۔ دنیا آج بسیار کاوشوں کے بعد اِن علوم و فنون تک رسائی حاصل کررہی ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے بارے میں 1400 سال پہلے ہی آگاہ فرمادیا تھا۔

1۔ قوانین حرکت (Laws of Motion)

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

لَقَد تَرَکْنَا مُحَمَّد صلی الله علیه وآله وسلم وَمَا یُحَرِّکُ طَائِر جَنَاحَیْهِ فِی السَّمَاءِ إِلاَّ أَذْکَرَنَا مِنْهٗ عِلْمًاء.

’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے لئے (اپنے علم میں سے) اتنا علم چھوڑا کہ جو پرندہ آسمان میں سے اپنے پروں کو بھی حرکت دیتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کا بھی ذکر فرمادیا ہے‘‘

(أحمد بن حنبل، المسند، 5 153، رقم 21399)

گویا آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پرندہ کے ہوا میں اڑنے کے اصول تک بیان فرمادیئے کہ قوانین حرکت (laws of motion) کیا ہیں؟ فضا میں اڑنے کے اصول کیا ہیں؟ یعنی پر ہلا کر اڑنے کی سائنس بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتا دی۔گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِن سائنسی قوانین کے بارے میں بھی ہمیں آگاہ فرمادیا جن کو آج کے دور میں نیوٹن اور آئن سٹائن جیسے سائنس دانوں نے بیان کیا۔

معلوم ہوا کہmodern aviation کی سائنس کی بنیاد کے بارے میں سب سے پہلے اظہار حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ مذکورہ حدیث میں وَمَا یُحَرِّکُ کے الفاظ Laws of motion کو واضح کررہے ہیں، جبکہ دوسری روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں

وَمَا یَتَقَلَّبُ فِی السَّمَاءِ طَائِر إِلاَّ ذَکَرَنَا مِنْهٗ عِلْمًاء.

آسمان میں جو بھی پرندہ نقل و حرکت کرتا ہے اُس کے متعلق حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں آگاہ فرمادیا تھا‘‘

(أحمد بن حنبل، المسند، 5 162، رقم 21477)

’’یتقلب‘‘ کا لفظ change of altitude کو ظاہر کررہا ہے کہ پرندہ کبھی اوپر ہوتا ہے، کبھی نیچے ہوتا ہے، اس کی یہ حرکت کیسے ہوتی ہے؟ کیوں ہوتی ہے؟ اُس کا Scientific اصول بھی ہمیں حضور علیہ السلام نے بتا دیا۔ گویا theory of flight اور aviation جس سے جہازوں کا اڑنا نکلا ہے، آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سائنسی اصول بھی ہمیں بتا دیتے تھے۔

2۔ کائنات کی تخلیق و اختتام

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں

عَنْ عُمَرَ یَقُوْلُ قَامَ فِیْنَا النَّبِيُّ مَقَامًا، فَأَخْبَرَنَا عَنْ بَدْءِ الْخَلْقِ حَتَّی دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ مَنَازِلَهْمْ وَأَهْلُ النَّارِ مَنَازِلَهْمْ، حَفِظَ ذَلِکَ مَنْ حَفِظَهُ وَنَسِیَهُ مَنْ نَسِیَهُ.

’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک روز ہمارے درمیان قیام فرما ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مخلوقات کی ابتدا سے لے کر جنتیوں کے جنت میں داخل ہو جانے اور دوزخیوں کے دوزخ میں داخل ہو جانے تک ہمیں سب کچھ بتا دیا۔ جس نے اسے یاد رکھا، یاد رکھا اور جو اسے بھول گیا سو بھول گیا۔‘‘

(الصحیح البخاری، کتاب بدء الخلق، 3/ 1166، الرقم 3020)

گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو یہاں تک بتادیا کہ How this universe was created? یہ کائنات کس طرح بنی؟ کیسے explosion ہوا؟ کیسے big bang ہوا؟ کس طرح مادہ بنا؟ کس طرح energy بنی؟ کس طرح forces بنیں؟ یہ کائنات کس طرح expand ہوئی؟ یعنی کائنات کے آغاز سے لے کے قیامت (end of the time ) تک آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سب کچھ بتا دیا۔ گویا کائنات کے آغاز اور اختتام کو جاننے کے علم کا دروازہ بھی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھولا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جو باتیں یاد رہ گئیں اور انہوں نے اِن باتوں کو آگے پہنچایا، صرف وہی اتنا عظیم ذخیرہ ہے کہ آج ہر قسم کے علم کی بنیاد اور جدید سائنسی تحقیقات ان کی بنیاد پر منظر عام پر آرہی ہیں۔

3۔ ذرائع آمدو رفت میں ترقی

آقا علیہ السلام کے زمانے میں اور اس سے قبل بھی لوگ گدھوں، گھوڑوں اور اونٹوں پر سواری کرتے تھے۔ ان کے علاوہ آمدو رفت کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ اس دور میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِن مذکورہ ذرائع کے علاوہ بھی مستقبل میں دیگر ذرائع آمدو رفت کے ہونے کے متعلق آگاہ فرمایا۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے صحابہ کرام کو بتایا

سَیَکُوْنُ فِی اَخِرِ أُمَّتِی رِجَالٌ یَرْکُبُوْنَ عَلٰی سُرُوجٍ کَأَشْبَاهِ الرِّحَالِ.

یعنی میری امت کے آخری دور میں ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ لوگ اونٹ، گھوڑے اور گدھے کی سواریوں کے بجائے نئی اور بڑی بڑی سواریاں استعمال کریں گے، modes of traveling تبدیل ہو جائیں گے اور لوگ اُن پر سواری کریں گے۔

(ابن حبان، الصحیح، 13 64، رقم 5753)

جس دور میں سوسائٹی صدیوں سے گدھوں، اونٹوں اور گھوڑے پر سفر کرتے ہوں اور ان کے علاوہ کوئی اور ذریعہ آمدو رفت نہ ہو تو اُس معاشرے کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا کہ یہ سواریاں نہیں رہیں گی بلکہ بہت بڑی بڑی اور نئی سواریاں آجائیں گی۔ حتیٰ کہ مسجد کے دروازے تک بھی انہی سواریوں پر سفر کر کے جائیں گے۔

آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان پر غور کریں۔ اس وقت مدینہ منورہ چھوٹا سا علاقہ (village) تھا اور اُس علاقے میں کسی شخص کو اونٹ، گھوڑے پر بھی سوار ہو کر مسجد نبوی جانے کی ضرورت نہیں بلکہ وہ پیدل بھی چلے تو پورے گاؤں/ علاقے کا بآسانی دورہ کرسکتا ہے۔ اس دور میں مدینہ منورہ اتنا ہی تھا جتنی آج مسجد نبوی ہے۔ میں نے 1963ء کے دور کا مدینہ منورہ دیکھا ہے، اس وقت مسجد نبوی چھوٹی تھی، اردگرد بازار تھے، تھوڑا آگے جاکر جنت البقیع آجاتی تھی، اِدھر مسجد غمامہ آجاتی تھی جو عید گاہ ہے۔ عید گاہ بھی شہر سے باہر ہوتی ہے اور قبرسان بھی شہر سے باہر ہوتا ہے۔ مسجد غمامہ اور جنت البقیع کے درمیان کل شہرِ مدینہ تھا۔ پیدل چلیں تو پانچ منٹ میں سارا شہر عبور کیا جاسکتا تھا۔ اس وقت جب پانچ منٹ میں سارا شہر کراس ہو جائے وہاں یہ فرمانے کی ضرورت کیا ہے کہ مسجد میں نماز کے لیے بھی لوگ سواریوں پر آئیں گے حالانکہ وہ لوگ تو اُس وقت بھی سواریوں پر نہیں جاتے تھے، گھر سے نکلے تو ایک منٹ میں پہنچ گئے۔

ان حالات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمانا کہ اونٹ، گھوڑے، گدھے نہیں رہیں گے اور ان کی اشباہ سواریاں آئیں گی، گویا آقا علیہ السلام modern technology اور modern world کا vision دے رہے ہیں کہ شہر کتنے وسیع ہوجائیں گے، آبادی کتنی ہو جائے گی اور سواریوں کا عالم کیا ہوگا؟

اُس زمانے میں گاڑیوں اور موٹرز کا کوئی تصور نہیں کر سکتا تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس زمانے میں موٹرز کا بھی ذکر فرمایا۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا

سَیَکُوْنُ اَخِرِ هٰذِهِ الْأُمَّةِ رِجَالٌ یَرْکُبُوْنَ عَلٰی الْمَیَاثِرِ. فَقُلْتُ لِأَبِی وَمَا الْمَیَاثِرُ؟ قَالَ سُرُوْجًا عِظَامًا.

’آخری زمانے میں ایسا وقت آئے گا کہ لوگ میاثر پر سفر کر کے جائیں گے۔ (صحابی کہتے ہیں کہ) میں نے اپنے والد گرامی سے پوچھا کہ میاثر سے مراد کیا ہے؟ انہوں نے کہا بڑی بڑی سواریاں۔‘

(حاکم، المستدرک، 4 483، رقم 8346)

غور کریں کہ اگر میاثر ایک ایسا لفظ ہوتا جو اُس وقت سوسائٹی میں عام تھا یا آسانی سے سمجھ میں آنے والا تھا تو وہ صحابی یہ نہ پوچھتے کہ ابا جان! یہ میاثر کیا چیز ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی نیا لفظ بولا ہے جو اہلِ عرب کی زبان میں استعمال نہیں ہوتا تھا۔

اب میں لفظ ’’میاثر‘‘ کی وضاحت کر دوں کہ عربی میں ’ٹ، نہیں ہے۔ جہاں (T) یا (ٹ) لگنا ہو وہاں (ث) لگتا ہے۔ میاثر کی واحد موثر ہے۔ آجکل گاڑیوں کے لیے انگلش میں لفظ موٹر استعمال کرتے ہیں۔ عربی میں یہ لفظ موثر ہو گا اور اس کی جمع کریں گے تو یہ مواثر یا میاثر ہو گا۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا موٹریں آجائیں گی، لوگ mechanical motors پر سفر کریں گے۔ اگر میاثر سے اس طرح کی چیز مراد نہ ہوتی تو صحابی یہ نہ پوچھتے کہ یہ میاثر کیا ہے؟ ان کا پوچھنا یہ بتارہا ہے کہ کوئی ایسی چیز بتائی جا رہی ہے جو عرب کلچر میں معروف نہ تھی۔ اس حدیث میں آقا علیہ السلام نے mechanical development اور motor vehicles جیسی advanced technology کا ذکر چودہ سو سال قبل فرما دیا۔

4۔ زمان و مکان کا پھیلاؤ (Expansion of Time & Space)

Time and space اور modern physics اور astro-physics جیسے تمام علوم کے بارے بھی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 1400 سال پہلے آگاہ فرمادیا تھا۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا

لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّی یَتَقَارَبَ الزَّمَانُ فَتَکُونُ السَّنَةُ کَالشَّهْرِ وَالشَّهْرُ کَالْجُمُعَةِ وَتَکُونُ الْجُمُعَةُ کَالْیَوْمِ وَیَکُونُ الْیَوْمُ کَالسَّاعَةِ وَتَکُونُ السَّاعَةُ کَالضَّرَمَةِ بِالنَّارِ.

قیامِ قیامت سے قبل زمانہ باہم قریب ہوجائے گا، سال مہینے جتنا، مہینہ ہفتے جتنا، ہفتہ دن کے برابر، دن ایک گھڑی جتنا اور ایک گھڑی، آگ بھڑکنے جتنی ہوجائے گی۔

(ترمذی، السنن، کتاب الزهد، بَابُ مَا جَاءَ فِي تَقَارُبِ الزَّمَانِ وَقِصَرِ الْأَمَلِ، 4 567، رقم 2332)

آج زمان ومکان کا پھیلاؤ expansion of time اور expansion of space یہ تمام کائنات کی gravitation کی وجہ سے ہے۔ کائنات جب سے بنی ہے پھیلتی جا رہی ہے اور اس کیgravitational power کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی جارہی ہے۔ ایک وقت ایسا آئے گا کہ جب یہ imbalance ہو جائے گی اور پھر سکڑنے لگ جائے گی، جیسے پھیلی تھی اسی طرح پھر سکڑنے لگ جائے گی۔ اب پھیلاؤ کی وجہ سے جو سورج چوبیس گھنٹے بعد نکلتا ہے اور سال اور مہینوں کا موجودہ فاصلہ ہے، جب کائنات سکڑنے لگ جائے گی تو چاند اور سورج کی حرکت بھی تیز ہو جائے گی اور تیز ہوتے ہوتے سال، مہینوں میں گزر جائے گا، مہینہ، ہفتے میں گزر جائے گا، ہفتہ ایک دن میں،دن گھنٹے میں گزر جائے گا۔ حتیٰ کہ قریب آتے آتے پھر zero volume کی طرف جائے گا اور پھیلاؤ (expansion) کی جگہ سکڑاؤ (contraction) ہوگا۔اس طرح اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ (قیامت قریب آپہنچی) کا عملی ظہور ہوگا۔

اس تقاربِ زمان اور وقت کے پھیلاؤ کو آقا علیہ السلام نے اس وقت بیان فرمایا کہ جب وقت کی اکائیوں کے سکڑنے کا صدیوں پہلے کوئی تصور نہیں کرسکتا تھا، اس زمانے میں آقا علیہ السلام نے اس تمام کو بیان فرمایا۔

5۔ ذرائع ابلاغ (Telecommunication)

آقا علیہ السلام نے پیغام رسانی کے موجودہ جدید ذرائع کے متعلق بھی 1400 سال پہلے آگاہ فرمادیا تھا۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِهِ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّی تُکَلِّمَ السِّبَاعُ الْإِنْسَ.

’’مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ درندے انسانوں سے کلام کریں گے‘‘

(ترمذی، السنن، 4/ 476، رقم 2181)

یعنی اُس وقت تک قیامت نہیں آئے گی جب تک انسانیت اتنی ترقی نہ کر جائے کہ جانوروں سے بھی لوگ حقائق جاننے کا کام لینے لگ جائیں گے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ تفتیشی کتے (جانور) ایئر پورٹس اور حساس مقامات پر نظر آتے ہیں اور ان کے ذریعے مشکوک اشیاء اور اشخاص کو شناخت کیا جاتا ہے۔ گویا یہ عمل کتوں کے بولنے کے مترادف ہے کہ وہ انسانوں کو بتا رہے ہیں کہ ان کی مطلوبہ چیز یا شخص کہاں ہے۔ ایک اور مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

حَتَّی تُکَلِّمَ الرَّجُلَ عَذَبَةُ سَوْطِهِ وَشِرَاکُ نَعْلِهِ.

’’حتیٰ کہ انسان سے اس کے چابک کی رسی اور جوتے کا تسمہ بھی گفتگو کرے گا‘‘

(ترمذی، السنن، کتاب الفتن، بَابُ مَا جَاءَ فِي کَلَامِ السِّبَاعِ، 4 476، رقم 2181)

آج ہم جو چھوٹے چھوٹے telecommunication کے آلات استعمال کرتے ہیں، جن میں باریک تاروں (cables) کا استعمال ہے، موبائل وغیرہ ان ہی کی جانب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشارہ فرمایا کہ جوتوں کے تسمے جیسی باریک چیزیں بھی بولیں گی اور انسان کو معلومات فراہم کریں گے۔ آج جاسوسی کے آلات، bugging system، کیمرے اور وائس ریکارڈر ان تمام کے متعلق آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حدیث مبارکہ میں خبر دی۔

آج جو modern technology پوری دنیا میں استعمال ہو رہی ہے اور آئے روز ہم مختلف خفیہ معلومات حاصل کرتے ہیں، آقا علیہ السلام نے اس طرح کی تمام معلومات کے حصول کے طریقے 1400سال پہلے بیان فرما دیئے تھے۔

6۔ بحری جہاز (warships)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں کوئی بحری جہاز نہیں تھے، کشتیاں نہیں تھیں، خلفائے راشدین کے دور میں جا کر کشتی develop ہوئی جب قبرص (Cyprus) میں فتوحات ہوئیں اور مسلمان افریقہ اور سپین گئے تو اس زمانے میں کشتی استعمال ہوئی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بحری جہازوں کے متعلق بھی پہلے ہی آگاہ فرمادیا تھا۔ حضرت فضالہ بن عبید الانصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم جنگ کے لیے سفر پر باہر نکلے ہوئے تھے، دورانِ جنگ آقا علیہ السلام نے دعا فرمائی اور دعا کرتے ہوئے فرمایا باری تعالیٰ!

وَعَلَی الرَّطْبِ وَالْیَابِسِ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ.

’’خشک و تر پر سفر کرنے والوں پر بھی کرم کر اور سمندری سفر کرنے والوں پر بھی رحم کر‘‘

اس وقت لوگ خشکی میں تو سفر کرتے تھے مگر اس وقت پانی پر کون سفر کر رہا تھا؟ سمندروں اور دریاؤں میں سفر ابھی شروع نہیں ہوئے تھے۔ صحابہ کرام کہتے ہیں

هَذِهِ دَعْوَةُ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم عَلَی الْقَوِيِّ وَالضَّعِیفِ فَمَا بَالُ الرَّطْبِ وَالْیَابِسِ؟

’’صحابہ آپس میں باتیں کرنے لگے کہ یہ کمزور اور طاقتور کے لیے دعا کرنا تو سمجھ میں آتا ہے مگر خشک و تر اور بحر و بر کے لیے یہ کیسی دعا ہے؟‘‘

(أحمد بن حنبل، المسند، 6 20، رقم 24001)

اس وقت صحابہ کرام کی سمجھ میں بھی نہیں آتا تھا کہ بحر و بر اور خشک و تر کے سفر ہوں گے۔ حضرت فضالہ بن عبید الانصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں اُس دن تک سمجھ نہیں آیا جس دن تک ہم بحری جہازوں کے ذریعے قبرص نہیں پہنچے۔ جب ہم جہازوں میں سوار ہوئے تو خدا کی قسم اُس دن سمجھ میں آیا کہ حضورe کی دعا اس دن کے لیے تھے۔

آقا علیہ السلام اپنی نگاہ سے سب دیکھ رہے تھے کہ کیا ترقی ہونے والی ہے؟ ٹیکنالوجی کی کیا advancements ہونے والی ہیں؟ سفر کے کیا کیا ذرائع آنے والے ہیں؟ انسانیت فضائی اور بحری، بری راستوں میں کس طرح سفر کرنے والی ہے؟ آقا علیہ السلام نے1400 سال قبل یہ تمام علوم انسانیت کو عطا کر دئیے اور ترقی کے دروازے کھول دئیے۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان فرامین کو سن کر سائنس دان تحقیق میں لگ گئے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا ہے تو اسی طرح ہوگا۔ لہذٰا ان امور کے بارے ریسرچ ہونے لگی۔

اسی طرح آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسان کی تخلیق کے بارے میں بھی اس زمانے میں تمام حقائق بیان فرمادیئے۔ (تفصیلات کے لئے زیرِ نظر خطاب سماعت فرمائیں۔) علم اور سائنس کی ترقی کے بارے میں آگاہی کے اس طرح کے سیکڑوں فرامین مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج ہمارے سامنے ہیں۔ ان تمام فرامین سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح سائنسی علوم (scientific knowledge) کے دروازے کھول کر آقا علیہ السلام نے امت پر اور انسانیت پر کرم کیا۔ آج مغربی دنیا کا ہر سائنسدان علمِ نبوتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا احسان مند ہے۔ تحقیق اور ترقی کے سارے دروازے آقا علیہ السلام نے کھولے ہیں، ورنہ انسانیت پستی، جہالت اور اندھیرے میں گری پڑی تھی۔

اسلام اور جدید علوم

آقا علیہ السلام نے medical sciences، botany، mechanics، zoology، biology، geology، ophthalmology، anesthesia، chemistry، mathematics، physics، dynamics، sociology، geography، communication، astronomy، astrology، algebra، geometry، pharmacology، surgery، engineering، technology الغرض جملہ علوم فنون کے دروازے کھولے۔

یہ تمام human sciences ہیں، آقا علیہ السلام نے سب کے اشارے دے کر دروازے کھولے اور انسانیت کو ترغیب دی کہ انسانیت ان ان حوالوں سے تحقیق کر کے ان کو آگے بڑھائے گی۔ آقا علیہ السلام کے عطا کردہ اس علم کی میراث کو لے کر مکہ و مدینہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین شام، بغداد، بصرہ، دمشق، ایران، سپین، افریقہ اور قرطبہ پہنچے، پھر ان ملکوں سے وہ سارا علم یورپ میں پہنچا۔ آج یورپ کی تمام تر ترقی کی بنیاد آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انہی فرامین پر قائم ہے، جس کا عملی ظہور بعد ازاں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ اسلام کے ذریعے دنیا کے سامنے آیا۔ اس بات کا اقرار اور اعتراف آج یورپی مصنفین اور سائنسدان بھی برملا کرتے نظر آتے ہیں۔ (تفصیلات کے لئے زیر نظر خطاب سماعت فرمائیں۔)

المختصر وہ تمام ذخیرہ جو مدینہ پاک میں مسجدِ نبوی کے منبر پر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا اور جسے لے کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام دنیا میں پھیلے، پھر اِن پر ائمہ نے کتابیں لکھیں، ایک ایک مصنف، سکالر، فلاسفر سو سو، دو دو سو کتابوں کا مصنف ہوا۔ پھر آٹھ سو سال کے بعد یورپ کی زبانوں میں ان کتابوں کے تراجم ہوئے اور ترجمہ ہونے کے بعد یہ یورپ کا modern scientific knowledge بنا۔ یہ آقا علیہ السلام کی رحمۃ للعالمینی کی شان ہے کہ سارے عالم کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علم، فن اور سائنس دے گئے اور اپنے غلاموں کے ذریعے علم کی خیرات پوری کائنات کو بانٹ گئے۔ امت مسلمہ کو فخر ہونا چاہیے کہ اللہ نے انہیں ایسے آقا عطا فرمائے کہ جن کی خیرات پوری کائنات میں تقسیم ہوتی ہے۔

قرآن میں اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی شان کے بارے میں فرمایا

وَعَلَّمَکَ مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ وَکَانَ فَضْلُ اﷲِ عَلَیْکَ عَظِیْمًاo

’’اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا کر دیا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے، اور آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے‘‘

(النساء، 4 113)

جو کچھ آپ نہیں جانتے تھے، انسانیت نہیں جانتی تھی اور انسانیت جان بھی نہیں سکتی تھی وہ سارا علم ہی اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دے دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے انسانیت کو علم کی خیرات بانٹی۔ انسانیت علم کے جس مقام پر پندرہ سو سال بعد پہنچی تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علم کی وہ خیرات پندرہ صدیاں پہلے انسانیت کو بانٹ دی تھی۔

آج مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ پلٹ کر درِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آجائیں، اس لئے کہ آقا علیہ السلام کی غلامی میں ہی کامیابی، عظمت اور ترقی ہے۔ جب سے ہم نے علم اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کا راستہ چھوڑا ہم جاہل، انتہا پسند اور دہشتگرد بن گئے۔ جب تک علمِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور رحمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متمسک رہے، اُس وقت تک پوری امت معتدل، پرامن اور علم و ترقی کے راستے پر گامزن رہی۔ آج دہشتگردی اور انتہا پسندی جہالت کی پیداوار اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دامن چھوڑنے کا نتیجہ ہیں۔

آج ہمیں اور ہماری نسلوں کو چاہیے کہ پلٹ کر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دہلیز اور غلامی میں آجائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی اختیار کریں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت و عشق کریں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خیرات کا فیض لیں اور جتنا زیادہ ہو اپنی نسلوں کو علم، عملِ صالح اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت و محبت کی طرف راغب کریں، اسی میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔

اللہ رب العزت ہمارے حال پر رحم فرمائے اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ سے ہمیں پختہ نسبت عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، نومبر 2017

تبصرہ