IMF کی شرائط پر عمل کر کے نہ نظر آنے والے ٹیکس بھی لگ جائیں گے۔ موجودہ نظام پاکستان کی معیشت کا اصل دشمن ہے۔ ڈاکٹر حسین محی الدین القادری

بجٹ تب اچھا ہوتا ہے جب بجٹ دینے والے اچھے ہوں۔ عوام اچھا بجٹ چاہتے ہیں تو اچھے حکمران لائیں۔ ڈاکٹر مبشر حسن
بجٹ میں زیادہ رول بیورو کریسی کا ہوتا ہے اگر ٹیکس چوری رک جائے تو IMF کے دروازے کا راستہ بھلایا جا سکتا ہے۔ ریاض فتیانہ
بجٹ عوام دوست نہیں ہو گا، ملٹری، سول اور سیاسی بیورو کریسی کے معاملات تو اچھے چلیں گے۔ ڈاکٹر قیس اسلم
وزیر خزانہ کی اپنی ساری انویسٹمنٹ دبئی میں ہے وہ دوسروں کو کس منہ سے ملک میں سرمایہ لانے کا کہہ رہے ہیں۔ ابراہیم مغل
قریبی ہمسایوں کے ساتھ تجارت کا راستہ کھولنا چاہیے۔ ہمارے بے وقوف حکمران سمندر پار تجارت کو ترجیح دیتے ہیں۔ شاہد اے ضیاء
پاکستان عوامی تحریک کے زیراہتمام مرکزی سیکرٹریٹ میں ہونے والے پری بجٹ سیمینار سے مقررین کا خطاب

پاکستان عوامی تحریک کی فیڈرل کونسل کے صدر اور وطن عزیز کے نامور اکانومسٹ ڈاکٹر حسین محی الدین القادری نے ماڈل ٹاؤن سیکرٹریٹ میں ہونے والے پری بجٹ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت عوامی جذبات کی نمائندہ نہ ہو تو وہ انکے توقعات پر پورا نہیں اترسکتی۔ جو ملک کی معیشت کو پچھلے 5, 6 سال سے نہیں سنبھال سکے وہ اب کیسے سنواریں گے؟ کرنسی جس تیزی سے ڈی ویلیو ہو رہی ہے خدشہ ہے کہ اسکی حالت انڈونیشا جیسی نہ ہو جائے۔ تنخواہوں میں 10 سے 20 فیصد اضافہ کر دیا جاتا ہے جبکہ مہنگائی کا تناسب اس سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ ملٹری کے بجٹ میں ایک سے سوا بلین روپے کا اضافہ کر دیا جائے گا۔ زرعی سیکٹر موت کے دہانے پر ہے جبکہ کبھی یہ معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا تھا۔ زرعی انڈسٹری کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا رہا ہے جو بہت بڑی غلطی ہے۔ زرعی انڈسٹری کو زندہ کر دیا جائے تو 50 فیصد روزگار کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ اگلے پانچ سے دس سالوں میں دنیا بھر میں فوڈ سیکیورٹی کا بڑا مسئلہ آنے والا ہے۔ پاکستان کے پاس زرخیز زمین اور ہر طرح کا موسم ہے۔ سمال، میڈیم اور بڑے لون دے کر پاکستان میں سبز انقلاب لانے کی ضرورت ہے۔ ہمارا المیہ ہے کہ ہم اپنا اصل میدان جو زراعت ہے، کو چھوڑ کر دوسرے ملکوں کے پیچھے چل پڑے ہیں۔ IMF کی شرائط پر عمل کر کے نہ نظر آنے والے ٹیکس بھی لگ جائیں گے۔ موجودہ نظام پاکستان کی معیشت کا اصل دشمن ہے جس میں ایک ماہر اکانومسٹ ملک کا بجٹ نہیں بنا سکتا۔ آج سے 65 برس قبل ایک قوم کو ملک کی تلاش تھی آج پاکستان قوم کو تلاش کر رہا ہے ہمیں ایسے نظام اور قیادت کی ضرورت ہے جو ہمیں قوم بنا سکے۔

استقبالیہ کلمات پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی صدر ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے ادا کئے۔ سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن نے کہا ہے کہ بجٹ تب اچھا ہوتا ہے جب بجٹ دینے والے اچھے ہوں۔ عوام اچھا بجٹ چاہتے ہیں تو اچھے حکمران لائیں۔ بجٹ آئینہ ہوتا ہے حکمرانوں کی ترجیحات کا۔ عجیب ملک ہے دو لقموں کو ترسنے والوں کے حکمران ارب پتی ہیں۔ پاکستان چند کروڑ غریبوں اور چند لاکھ امیروں کا ملک ہے۔ سفید پوش طبقہ تو اب کتابوں میں ہی ملے گا۔ ہم تو اس حال کو پہنچ چکے کہ IMF کے قرض کا سود غریبوں پر ٹیکس لگا کر دیتے ہیں۔ پاکستان کا المیہ ہے کہ امیر لوگ ٹیکس نہیں دیتے اور جن سے لیا جاتا وہ تنخواہ دار طبقہ ہے۔ حکمران طبقہ پاکستان کا نہیں ذاتی مفاادت اور بڑی طاقتوں کا وفادار ہے۔

سابق وفاقی وزیر ریاض فتیانہ نے کہا کہ بجٹ میں زیادہ رول بیورو کریسی کا ہوتا ہے اگر ٹیکس چوری رک جائے تو IMF کے دروازے کا راستہ بھلایا جا سکتا ہے۔ کالا باغ ڈیم کا نام بدل کر سبز باغ ڈیم رکھ دینا چاہیے اگر یہ بن جاتا تو 7000 میگا واٹ بجلی بھی دے رہا ہوتا۔ پاکستان میں آبادی پر کنٹرول کرنے کیلئے سنجیدگی سے سوچنا ہو گا۔ زیادہ آمدنی والوں اور بڑی گاڑیوں پر ٹیکس کی شرح بڑھانا ہو گی۔ سرکاری دفاتر میں AC کے استعمال پر پابندی لگانا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کیلئے یوتھ پالیسی بنانا ہو گی تا کہ ٹیلنٹ ملک کے کام آ سکے۔ نوجوانوں کو تعمیری سرگرمیاں دینا حکومت کی اولین ترجیح ہونا چاہیے۔

ممتاز ماہر معاشیات پروفیسر ڈاکٹر قیس اسلم نے کہا کہ آنے والا بجٹ عوام دوست نہیں ہو گا، ملٹری، سول اور سیاسی بیورو کریسی کے معاملات تو اچھے چلیں گے۔ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں غریب امیروں کو کھلاتے ہیں۔ امن کا ماحول پیدا کرنے کیلئے ہمسایوں خصوصاً ایران، انڈیا اور چین سے دوستی کرنا ہو گی۔ ٹیکس کے نظام کو عوام دوست اور بزنس دوست بنانا ہو گا۔ ریلوے کی بات تو ہوتی ہے کیوں نہ FBR کو پرائیوٹائز کر دیا جائے۔ گریڈ 1 سے 16 کی تنخواہوں میں 100 فیصد اضافہ کر کے مراعات کا کلچر ختم کر دیا جائے۔ ہمارا المیہ ہے کہ حکومتی ادارے بجلی کا بل نہیں دیتے۔

چیئرمین ایگر ی فورم پاکستان ابراہیم مغل نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئین پابند کرتا ہے کہ بجٹ پیش کیا جائے۔ وزیر خزانہ کی اپنی ساری انویسٹمنٹ دبئی میں ہے وہ دوسروں کو کس منہ سے ملک میں سرمایہ لانے کا کہہ رہے ہیں۔ اسلامی ممالک کے 400 بلین ڈالر مغربی بینکوں میں پڑے ہیں اسلامی ممالک اپنا بینک کیوں نہیں بناتے۔ GDP میں اضافے کے پانچ ستون ہوتے ہیں ان پر توجہ دینا ہو گی۔ ملک میں میگا پراجیکٹ شرو ع کئے جائیں، قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھایا جائے۔ زرعی گروتھ اور بزنس گروتھ غیر معمولی طور پر بڑھائی جائے اور سروسز کے کلچر کو عام کیا جائے۔ گریڈ ایک سے سولہ کی تنخواہیں 60 فیصد 17 سے 19 کی 20 فیصد اور 20 سے 22 کی 10فیصد بڑھا دی جائیں اور مراعات کا کلچر ختم کر دیا جائے۔ 75فیصد سرکاری گاڑیاں بیچ دی جائیں۔

ممتاز اکانومسٹ اور بینکار شاہد اے ضیاء نے کہا کہ خسارے کا بجٹ ہو گا اور آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ ٹیکس ایشو نہیں ٹیکس کا جمع کرنا مسئلہ ہے۔ مسئلہ سرجری سے حل ہو گا مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس عطائی تو ہیں سرجن نہیں ہیں۔ FBR میں عزم نہیں ہے۔ پاکستان میں صحت اور تعلیم کے دونوں شعبے ہر دور میں نظر انداز کئے گئے جبکہ پوری دنیا میں ان پر سب سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ قریبی ہمسایوں کے ساتھ تجارت کا راستہ کھولنا چاہیے۔ ہمارے بے وقوف حکمران سمندر پار تجارت کو ترجیح دیتے ہیں۔ وسائل اور آبادی ددونوں چین اور انڈیا کے پاس ہیں۔ ڈیم بنانے سے فائدہ ہی فائدہ ہے چاہے یہ بڑے ہوں یا چھوٹے۔ ٹیکس کولیکشن کیلئے تاجروں کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھا جائے۔المیہ یہ ہے کہ ٹیکس کی Base نہیں بڑھائی جا رہی۔ سیمینار سے پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری کوآرڈینیشن ساجد محمود بھٹی اور چودھری محمد شریف نے بھی خطاب کیا۔

تبصرہ