چیف جسٹس نے سانحہ ماڈل ٹاؤن متاثرین کو انصاف میں تاخیر کا نوٹس لے لیا

سانحہ ماڈل ٹاؤن کی شہیدہ تنزیلہ امجد کی بیٹی بسمہ امجد نے سپریم کورٹ رجسٹری لاہور میں چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثار سے ملاقات کی اور چار سال کے بعد بھی انصاف نہ ملنے پر چیف جسٹس کو درخواست پیش کی اور ان سے جلد انصاف کیلئے سووموٹو ایکشن لینے کی اپیل کی۔ چیف جسٹس نے انصاف میں تاخیر پر تشویش کا اظہار کیا اور تاخیر کی وجوہات جاننے کیلئے مفصل رپورٹ طلب کرلی۔ نعیم الدین چوہدری اور نور اللہ صدیقی بھی بسمہ امجد کے ہمراہ چیف جسٹس سے ملاقات میں شامل تھے۔

مؤرخہ 08 اپریل 2018 کو شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء صبح 8 بجے سپریم کورٹ رجسٹری کے باہر ’’چیف جسٹس انصاف دو۔ ۔ ۔ چیف جسٹس نوٹس لو‘‘ کے کتبے اٹھا کر کھڑے تھے، جب چیف جسٹس کا قافلہ شہداء کے ورثاء کے قریب سے گزرا تو انہوں نے اپنی گاڑی آہستہ کر لی اور تمام کتبوں پر نگاہ دوڑائی اور پھر اپنے چیمبر میں پہنچ کر تین نمائندوں کو آنے کا کہا جس پر تنزیلہ امجد شہید کی بیٹی بسمہ امجد، مرکزی ترجمان نور اللہ صدیقی اور نعیم الدین چوہدری چیف جسٹس کے چیمبر میں ملاقات کیلئے گئے۔ ملاقات کے بعد نعیم الدین چوہدری، نور اللہ صدیقی اور بسمہ امجد نے میڈیا سے گفتگو کی۔

بسمہ امجد نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ چیف جسٹس نے انتہائی شفقت سے بات سنی اور انہوں نے یقین دلایا کہ انصاف ہو گا، کوئی قانون سے بالاتر نہیں ہے، انہوں نے انصاف میں تاخیر کا نوٹس لیا ہے اس پر انکی شکر گزار ہوں۔

نعیم الدین چوہدری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس نے پوری بات سنی اور واضح الفاظ میں کہا کہ کوئی انصاف کے عمل پراثر انداز نہیں ہو سکتا، میرے ہوتے ہوئے تو بالکل ایسا نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ انصاف ملے گا، ڈرنے کی ضرورت نہیں کوئی ہراساں نہیں کر سکتا، تاخیر کی وجوہات کیا ہیں یہ جاننے کیلئے نوٹس جاری کر رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق انصاف فراہم کرنا ٹرائل کورٹ کی ذمہ داری ہے۔ نعیم الدین چوہدری نے کہا کہ ہم نے چیف جسٹس کو بتایا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے پیچھے سابق وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب، وزیر قانون پنجاب اور انکے حواری ہیں اور سانحہ ماڈل ٹاؤن محض حادثہ نہیں سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا حصہ ہے اور انصاف کون نہیں ہونے دے رہے یہ ریکارڈ کی بات ہے۔ حکمران انصاف کے عمل پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 17 جون 2014 کے دن قانونی بیرئیر ہٹانے کیلئے پنجاب حکومت نے غیر قانونی آپریشن کیا، 100 لوگوں کو گولیاں ماریں جن میں 14 شہید ہو گئے، جوڈیشل کمشن کی رپورٹ میں یہ لکھا ہے کہ پولیس نے وہی کیا جسکا انہیں حکم دیا گیا تھا۔

دریں اثناء پاکستان عوامی تحریک کے ترجمان نور اللہ صدیقی نے بتایا کہ ملاقات کے دوران چیف جسٹس کے علم میں لائے کہ پنجاب حکومت نے تفتیش سے لے کر ہر مرحلہ پرانصاف کا خون کیا، کیونکہ وہ اس سانحہ میں براہ راست ملوث ہیں۔ جو جے آئی ٹی بنائی تھی اس میں دو اہم ایجنسیز نے اختلافی نوٹ لکھے تھے جسے پنجاب حکومت نے غائب کر دیا اور ہر اس ثبوت کو غائب کر دیا جس سے انصاف کی فراہمی کے عمل کو تقویت ملتی ہو، ترجمان نے کہا کہ چیف جسٹس کو بتایا کہ تا حال فرد جرم بھی عائد نہیں ہو سکی، با اثر ملزمان روایتی درخواست بازی کر کے فرد جرم کے عمل کو بھی التوا کا شکار بنا رہے ہیں۔ ترجمان کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ انصاف کی فراہمی اے ٹی سی کی ذمہ داری ہے ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ قانون کے بر عکس کچھ نہ ہو اور اسکی نگرانی کریں گے۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن کی شہیدہ تنزیلہ امجد کی بیٹی بسمہ نے چیف جسٹس سے کہا کہ آپ سب سے بڑے منصف ہیں ہماری ساری امیدیں آپ سے ہیں، آپ ہمیں انصاف دلائیں، ہم بہن بھائی اپنی ماں کے بغیر کیسے رہ رہے ہیں یہ صرف ہم جانتے ہیں، سر! مجھے بتایا جائے میری ماں اور میری پھوپھو کا قصور کیا تھا؟ انہیں ناحق کیوں مارا گیا؟ بسمہ کے مکالمہ پر چیف جسٹس نے بسمہ کے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا آپ تعلیم کے حصول کیلئے اپنی ماں کا خواب پورا کریں، ساری توجہ تعلیم پر دیں انصاف ہماری ذمہ داری ہے اور ان شا اللہ قانون کے مطابق انصاف ہو گا۔

عدالت کے باہر شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کے ہمراہ امیر تحریک منہاج القرآن حافظ غلام فرید، میاں صدیق، آصف محمود، اصغر ساجد، میاں حنیف، عمر اعوان، عبدالحفیظ چوہدری، ریحان چوہدری تھے۔

تبصرہ