سانحہ ماڈل ٹاؤن، سابق ڈی سی او کیپٹن (ر) عثمان پراے ٹی سی میں ساڑھے 3 گھنٹے جرح

سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس کے سلسلے میں سابق ڈی سی او لاہور کیپٹن (ر) عثمان پر انسداد دہشتگردی کی عدالت میں شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کے وکلاء کی طرف سے مسلسل دوسرے روز جرح جاری رہی، سوالات کا جواب دیتے ہوئے کیپٹن (ر) عثمان نے بتایا کہ ڈی سی او لاہور لگائے جانے سے قبل وہ فوڈ ڈیپارٹمنٹ میں تھے، یہ تعیناتی وفاقی حکومت کی طرف سے تھی اور وہ ڈیڑھ لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ لے رہے تھے، انہوں نے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری اور ادارہ منہاج القرآن کے باہر سے حفاظتی بیریئر ہٹائے جانے کے آپریشن کرنے کا حکم بذریعہ ٹیلیفون اس وقت کے کمشنر لاہور راشد لنگڑیال نے دیا اور اس ٹیلیفونک ہدایات کی روشنی میں میں نے بھی اپنے ماتحت عملہ کو آپریشن کرنے کی زبانی ہدایات دیں، انہوں نے بتایا آپریشن کا مجھے تحریری حکم ملا نہ میں نے کوئی تحریری حکم جاری کیا، اس وقت کے کمشنر لاہور نے ٹیلیفون پر بتایا تھا کہ صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کا حکم ہے کہ حفاظتی بیریئر ہٹانے کا آپریشن کیا جائے، سابق ڈی سی او لاہور کیپٹن (ر) عثمان پر مسلسل دو روز ساڑھے پانچ گھنٹے جرح ہوئی، مورخہ 30 اگست کو بھی جرح جاری رہے گی۔

عوامی تحریک کی لیگل ٹیم کے سربراہ رائے بشیر احمد ایڈووکیٹ، بدرالزمان چٹھہ ایڈووکیٹ اور نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ نے ملزم کیپٹن (ر) عثمان پر جرح کے بعد گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کیپٹن (ر) عثمان کو شریف برادران کی خواہش کے مطابق ماڈل ٹاؤن میں قتل عام کی سرپرستی کرنے پر بطور انعام صاف پانی پراجیکٹ میں لگایا گیا اور جہاں انہیں ساڑھے 14 لاکھ روپے ماہانہ بھاری تنخواہ دی گئی، انہوں نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس کے ملزم کیپٹن (ر) عثمان نے یہ اعتراف کیا ہے کہ وہ 17 جون 2014ء کے دن صبح 9 بجے سے لیکر 12:45 تک ماڈل ٹاؤن میں موقع پر موجود رہے، وکلاء نے کہا کہ عین اسی وقت پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ کا گھیراؤ کیا گیا، خواتین کو قتل کیا گیا، ادارہ منہاج القرآن کا گھیراؤ کیا گیا اور وہاں پر موجود نہتے کارکنوں پر بدترین تشدد، فائرنگ اور قتل عام کیا گیا۔ کیپٹن (ر) عثمان کا موقع پر موجود ہونے کا اعتراف اس بات کی گواہی ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تمام قتل و غارت گری کیپٹن (ر) عثمان کی آنکھوں کے سامنے ہوئی۔

مستغیث جواد حامد نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ میں یہ بات درج ہے کہ کیپٹن (ر) عثمان اور سابق آئی جی مشتاق سکھیرا کو ماڈل ٹاؤن میں خون کی ہولی کھیلنے کیلئے بطور خاص لایا گیا، انہوں نے کہا کہ سابق ڈی سی او لاہور احمد جاوید قاضی اور سابق آئی جی پنجاب خان بیگ نے شہباز حکومت کے اس خونی منصوبے کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا جس کی وجہ سے مذکورہ دونوں اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کو ہٹا کر کیپٹن (ر) عثمان اور مشتاق سکھیرا کو تعینات کیا گیا، انسداد دہشتگردی عدالت میں بدرالزمان چٹھہ ایڈووکیٹ، نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ، مستغیث جواد حامد، شکیل ممکا ایڈووکیٹ موجود تھے۔

مزید سماعت 30 اگست کو ہو گی۔

تبصرہ