شہر اعتکاف (چوتھا دن)

خطاب شیخ الاسلام

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 22 ویں سالانہ شہر اعتکاف میں 13 اگست 2012ء اور 24 رمضان المبارک کو تربیتی نشست میں خصوصی خطاب کیا۔ تصوف پر نیت کے موضوع پر آپ کا یہ خطاب منہاج القرآن انٹرنیشنل برطانیہ کے لندن سنٹر سےتھا جس کو منہاج ٹی وی کے ذریعے براہ راست پیش کیا گیا۔ انڈیا میں بھی مختلف ٹی وی چینلز کے ذریعے شیخ الاسلام کا خطاب دیکھا گیا۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ جب آپ اعتکاف بیٹھیں تو یہ نیت کریں کہ میں مسجد میں اس لیے جا رہے ہوں کہ شاید وہاں مجھے اللہ سے محبت کرنے والی کوئی سنگت مل جائے۔ جب آپ کی یہ نیت ہوگی، تو پھر ان کے لیے اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے، جس کی برکتیں دنیا اور آخرت دونوں میں ہیں۔

قیامت کے دن اللہ تعالیٰ دو محبت کرنے والوں کو اکھٹا کر دے گا۔ جس طرح وہ یہاں اکھٹےہوں گے، تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بھی ان کو اکٹھا کر دے گا۔ حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑا حیا ء فرمانے والا اور کرم کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اس بات سے حیاء آتا ہے کہ جو شخص جن اللہ والوں سے محبت کرتا تھا تو اس کو ان کے سامنے رسوا کرے۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ اللہ والوں سے محبت کی شرط نیکی، پاکیزگی، طہارت اور الحب للہ ہے۔ امام حسن بصری فرماتے ہیں کہ جب کسی سے دوستی کرنی ہوتو یہ پہلے یہ سوچو کہ اس کی دوستی قیامت کے دن بھی کام آئے گی یا نہیں۔ کیونکہ قیامت کے دن ہر شخص نفسا نفسی میں ہوگا۔ کوئی کسی کا پرسان حال اور خیر خیریت پوچھنے والا نہیں ہوگا، سب خونی رشتے جواب دےجائیں گے۔ بیوی شوہر کو نہیں پہچانے گی، بھائی، بھائی سے بھاگے گا۔ بھائی، بہن کو نہیں پہچانے گا۔ ہر شخص کو اپنی پڑی ہوگی۔ قرآن میں ہے کہ قیامت کے نفسا نفسی کے عالم میں سارے دوست ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے۔ لیکن سوائے متقی لوگوں کے۔ اسی لیے اللہ والے ایک دوسرے سے آنکھیں نہیں پھیریں گے۔ اولیاء صالحین کو اپنی فکر نہیں ہوگی۔ ان کے ساتھ وعدہ الہی ہوگا۔ قیامت کا دن اللہ والوں کے لیے پکنک کا دن ہوگا۔ وہ اللہ کو تک رہے ہوں گے اور اللہ ان کو تکتا ہوگا۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو بندے آپس میں میری وجہ سے محبت کرتے ہیں تو میں اس سے محبت کرنا اپنے اوپر لازم کر لیتا ہوں۔ اس لیے لوگو! آپ اللہ سے بیوفائی چھوڑ دیں، وہ آپ کو شناسائی دے دے گا۔ بیوفائی کا مطلب ہے کہ اس کے احکام کی نافرمانی نہ کریں۔

آپ نے ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ حضرت جنید بغدادی یا ذوالنون مصری کشتی میں سوار تھے کہ کچھ لوگ کشتی میں ناچ گانا کر رہے تھے کہ ان کے تلمیذ کہنے لگے کہ ان کے لیے بددعا کریں۔ فرمایا کہ اچھا کرتا ہوں۔ ہاتھ اٹھا کر دعا کر رہے ہیں کہ مولا یہ جوان جس طرح یہاں خوش پھرتے ہیں، انہیں جنت میں بھی خوش رکھنا۔ یہ دعا سن کر مریدوں کے دل بیٹھ گئے۔ یہ اولیاء اللہ کا طریق ہے کہ گناہ سے نفرت کرو، گنہگار سے نہ کرو۔ جب آپ گھر پہنچے تو مریدوں نے کہا کہ حضور آپ نے یہ کیا کر دیا۔ آپ نے ان کو دعا میں جنت دے دی۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے ان کے لیے جنت کی دعا کی ہے۔ اب یہ جنت کی خوشیاں تب ہی پائیں گے، جب یہ توبہ کریں گے۔ میں نے دراصل پیار بھرے انداز میں توبہ کی دعا کی ہے۔ امام عبدالرحمن سلمی فرماتے ہیں کہ جتنے جوان تھے، سب نے توبہ کی اور ان میں سے ہر شخص اپنے زمانے کا ولی اللہ بن گیا۔ یہ ہے اللہ کے نیک بندوں کا حیاء، جو اللہ کرتاہے۔

آپ نے کہا کہ آج اللہ کے بندوں کے محبوب بندوں کا تذکرہ عام کرنے کی بجائے توحید کے نام پر عقیدگی پھیلائی جا رہی ہے۔ میںخود ایسے علماء ہیں، جن کی تبلیغوں میں سب کچھ ہوگا، لیکن حضور کی محبت نہیں ہوگی۔ اولیاء اللہ کی صحبت کا ذکر نہیں ہوگا۔ ایسے مبغلین کی کمی نہیں ہے۔

تبصرہ