پولیس نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے اہل خانہ کو قتل کرنے کیلئے ماڈل ٹاؤن پر ہلہ بولا: جواد حامد

عوامی تحریک نے جے آئی ٹی میں پیش نہ ہونے کی تحریری وجوہات کے بارے میں آئی جی پنجاب کو آگاہ کر دیا
مدعی مقدمہ جواد حامد کی طرف سے خط کی کاپی ہوم سیکرٹری، سربراہ جے آئی ٹی و دیگر ممبران کو بھی بھجوائی گئی ہے

لاہور (30 دسمبر 2014) پاکستان عوامی تحریک کی طرف سے شہدائے ماڈل ٹاؤن کے مقدمہ کے مدعی جواد حامد نے جے آئی ٹی میں پیش نہ ہونے کی تحریری وجوہات کے بارے میں آئی جی پنجاب کو آگاہ کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ہمیں حکومت کی بنائی اس جے آئی ٹی پر اعتبار نہیں کیونکہ یہ جے آئی ٹی پنجاب پولیس کے افسران پر مشتمل ہے جس پولیس نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے اہلخانہ کو قتل کرنے کیلئے 17 جون کو ان کی رہائش گاہ پر ہلہ بولا اور 14افراد کو میڈیا کی موجودگی میں شہید اور 85سے زائد کو شدیدزخمی کر دیا ڈاکٹر طاہرالقادری اور ان کے کارکنوں، عہدیداروں کا صرف یہ قصور تھا کہ وہ ن لیگ کی لوٹ کھسوٹ کے خلاف اور عوام کے بنیادی آئینی حقوق کی بازیابی کیلئے جدوجہد کررہے تھے اس پر انتقامی کارروائی کرتے ہوئے پنجاب حکومت نے پولیس کے ذریعے ماڈل ٹاؤن سیکرٹریٹ پر ہلہ بولا اور خون کی ندیاں بہائیں۔

جواد حامد نے آئی جی پنجاب کی طرف سے جے آئی ٹی میں پیش ہو کر بیان ریکارڈ کروائے جانے کے نوٹسز کے جواب میں کہا کہ ہم صرف اس جے آئی ٹی میں پیش ہونگے جس میں پنجاب پولیس کا کوئی نمائندہ شامل نہیں ہو گا اور جو آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندوں پر مشتمل ہو گی، انہوں نے خط میں لکھا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کو پبلک کرنے سے روکا اور اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا، اس وزیراعلیٰ کے ہوتے ہوئے اور اس کے ماتحت کام کرنے والی جے آئی ٹی انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر سکتی، خط کی کاپی آئی جی پنجاب کے علاوہ ہوم سیکرٹری پنجاب، جے آئی ٹی کے سربراہ عبدالرزاق چیمہ، سی سی پی او لاہور، ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور، ایس پی انوسٹی گیشن لاہور، ڈی ایس پی انویسٹی گیشن فیصل ٹاؤن، ڈی ایس پی محمد اعظم اور ایس ایچ او فیصل ٹاؤن کو ارسال کی گئی ہیں۔

تبصرہ