نوجوان ملک و قوم کا سرمایۂ حیات

مظہر محمود علوی
مرکزی صدر منہاج القرآن یوتھ لیگ

یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ زمانہ جتنابھی آگے سفر طے کرتا چلا جائے گا نوجوانوں کی اہمیت، کردار اور حیثیت بھی بڑھتی چلی جائے گی۔ ہر زندہ قوم، تحریک اور نظریہ جوانوں پر خصوصی توجہ دیتا ہے کیونکہ سب کو یہ معلوم ہے کہ اقوام وملل کو چلانے، تحریکوں کو متحرک رکھنے اور افکار و نظریات کو کامیابی سے ہمکنا ر کرنے کے لیے ہمیشہ نوجوان طبقے نے ہی بنیادی کردار ادا کیا۔ نوجوان بلند حوصلوں کے پیکر، جہد ِمسلسل اور جفا کشی کا عملی نمونہ ہوتے ہیں اور اپنے جذبوں، ولولوں اور ہمت سے منزل کے حصول کے لئے واپسی کے سب راستے مسمار کر دیتے ہیں اور خطرات کے سامنے سینہ سپر ہوتے ہوئے بالآخر فتح و کامرانی کو اپنے نام لکھوا کر ہی دم لیتے ہیں۔

لیکن اس حقیقت کو کبھی بھی جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ جوانوں کا یوں جذبوں اور ولولوں سے سر شار ہو کر مشکلات سے ٹکرا جانا کسی اولوالعزم قیادت کی رہنمائی اور تربیت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس حقیقت کو اگر ہم قیام پاکستان کے تناظر میں دیکھیں تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ تحریک پاکستان کی جدوجہد میں جذبوں اور ولولوں سے سر شار عظیم نوجوانوں نے جو کردار ادا کیا وہ درحقیقت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی فکری و شعوری تربیت اور قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت سے ہی ممکن ہوا۔

جرأت مند قیادت کی ضرورت

قیامِ پاکستان سے قبل برصغیر پاک و ہند میں انگریز سامراج اور ہندووں کے گٹھ جوڑ کے سامنے مسلمان کمزور تھے اورمعاشی کمزوری، سیاسی محکومی، تعلیمی تقسیم اور مذہبی پابندیوں کی وجہ سے بر صغیر پاک و ہند کے مسلمان موت و حیات کی کشمکش میں ہی زندگی بسر کر رہے تھے۔ ان حالات میں برصغیر کے مسلمانوں کو ایک ایسے رہنما کی ضرورت پیش آئی جو ان کے اندر سے احساس محرومی، مایوسی اور بے یقینی کی کیفیت کو ختم کرے اور دوسری طرف ان کے اندر خود داری، جرأت مندی اور یقین کی دولت پیدا کرتے ہوئے انہیں ایک آزاد خود مختار ریاست کے حصول کے لیے میدانِ عمل میں اتارے۔

تاریخِ انسانی گواہ ہے کہ ظلم و ستم اور تاریکی کے حالات میں گھری قوم کو نکالنے کے لئے قدرت ہمیشہ بلند حوصلوں کی مالک، زیرک اور آزادی کے مفہوم سے آشنا قیادت کو میدانِ عمل میں اتارتی ہے جو قوم کو درست منزل کا راستہ دکھاتی ہے۔ ایسا ہی کچھ برصغیر کے مسلمانوں کے نصیب میں آیا کہ جب انہیں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ جیسے نبض شناس مفکر و رہنما اور قائد اعظم جیسی زیرک اور با کردار قیادت عطا ہوئی۔

اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قوم کی ترقی و عروج کا باعث مال و دولت کی کثرت سے نہیں بلکہ ایسے نوجوانوں کا وجود ہے جو ذہنی و جسمانی اعتبار سے صحت مند اور پاکیزہ کردار کے مالک ہوں۔ اسی لیے انہوں نے نوجوانوں میں اعتماد، حوصلہ اور ہمت پیدا کرنے کے لیے انہیں جا بجا شاہین اور عقاب کے القابات سے نوازا ۔ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے برصغیر کے ابتر حالات میں نوجوانوں کو بیدار کرنے کے لیے انہیں ان کا قابل رشک ماضی بھی یاد کروایا اور نوجوانوں کے کردار کی طاقت کو شمشیر کی قوت سے زیادہ اہمیت دیتے ہوئے فرمایا:

اُس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورتِ فولاد

اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے پیغام کا نوجوانو ں پر ایسا سحر انگیز اثر ہوا کہ وہ جوش، ولولے اور حوصلے کے ساتھ الگ ریاست پاکستان کے مطالبے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور ایسے سرگرم ہوئے کہ الگ وطن حاصل کر کے ہی دم لیا۔

قیامِ پاکستان کے بعد نوجوانو ں کی حالت زار

قیامِ پاکستان کے بعد ریاستِ پاکستان کی 70سالہ تاریخ گواہ ہے کہ وطن عزیز میں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اور قائد اعظم کی فکر اور فرمودات کی جھلک نظر آنی تو دور کی بات، یہاں تو سب کچھ اس کے بر عکس نظر آیا۔ خواہ تعلیمی نظام ہو یا معاشی نظام، سیاسی حالات ہوں یا اخلاقی و معاشرتی صورتحال ہر شعبہ آزاد خود مختار ریاستِ پاکستان میں زبوں حالی کا شکار ہی ملا۔ لمحہ فکریہ ہے کہ وہ نوجوان طبقہ جو ملک و قوم کا سرمایہ اور کل آبادی کا 60 فیصد ہے ہمارے نام نہاد حکمرانوں کی ترجیح ہی نہیں رہا جبکہ مصورِ پاکستان اور بانی پاکستان کے خطبات اور فرمودات میں جا بجا نوجوان نسل کو ہی تر جیح دی گئی ہے۔

قیام پاکستان کے بعد شدت سے محسوس کیا گیا کہ جناح اور اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے فرمودات کی روشنی میں تعمیرپاکستان سے تکمیلِ پاکستان کے سفر میں نوجوان طبقے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اُسے پھر سے اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا شاہین اور قائد اعظم کے پاکستان کا سپاہی بنایا جائے تاکہ لاکھو ں قربانیوں کا ثمر پاکستان کو اپنا اصل تشخص واپس دلایا جا سکے۔ پاکستان سے لاقانونیت، اقرباء پروری، بدامنی، بے روز گاری، کرپشن، غنڈہ گردی، تنگ نظری، انتہا پسندی اور دہشتگردی کا خاتمہ ہو سکے۔ وطنِ عزیز کا امن بحال ہو، خوشحالی کا دور دورہ ہو، نوجوان ڈگریاں ہونے کے باوجود بے روز گاری کی وجہ سے نہ تو جرائم میں ملوث ہوں اور نہ ہی خود کشیاں کریں۔

منہاج القرآن یوتھ لیگ: نوجوانوں کا نمائندہ فورم

ان تمام حالات کے پیشِ نظر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے 30نومبر 1988ء میں منہاج یوتھ لیگ کی صورت میں نوجوانوں کا ایک پلیٹ فارم بنایا جس کا بنیادی مقصد نوجوانوں میں وہی عقابی روح پیدا کرنا ہے جو قیامِ پاکستان کی جدوجہد کے لیے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے پیدا کی تھی اور اب پاکستان کی تعمیر سے تکمیل کے اس سفر میں پھر سے اسی نہج پر نوجوانو ں کی کردار سازی کے ذریعے انہیں تکمیلِ پاکستان جیسے عظیم مقصد کے لئے تیار کیا جائے۔

منہاج یوتھ لیگ نوجوانوں کا واحد نمائندہ فورم ہے جو ہر قسم کی لسانی، گروہی، مذہبی اور علاقائی تفریق سے پاک نوجوانوں کی ہمہ جہت اخلاقی، روحانی، تعلیمی، تکنیکی، عصری، تفریحی، شعوری، سیاسی، سماجی اورفلاحی پہلوئوں پر خالصتاً تربیت کر رہا ہے تاکہ ایک نوجوان نہ صرف اپنی زندگی میں خودداری، جواں مردی اورہمت کا پیکر بنے بلکہ اپنے کردار، اخلاق اور زبان میں شائستگی پیدا کر تے ہوئے ملک و قوم کے لئے ہر شعبہ میں قیمتی سرمایہ ثابت ہو۔

شیخ الاسلام قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی منظوری سے تحریک منہاج القرآن کے آفاقی پیغام کو دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچانے کیلئے وژن 2025 ء دیا گیا ہے۔ وژن میں یوتھ سے متعلق جتنے بھی اہداف مقرر کیے گئے ہیں ان شاء اللہ تعالیٰ ان کے حصول میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جائے گا۔ دعوت و تبلیغ، اصلاح احوالِ امت، تجدید و احیائے دین، ترویج و اقامتِ اسلام، فروغ علم، اتحاد امت اور عالمی امن کے قیام کیلئے ویژن کی روشنی میں یوتھ لیگ اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لائے گی اور شیخ الاسلام کے وژن کی روشنی میں جملہ اہداف کا حصول ممکن بنائے گی۔ اصلاح احوال امت کے لیے دعوت کے جملہ طریقہ کار اور ٹولز استعمال کیے جائیں گے۔ گوشہ درود کے حلقات ہوں یا تحصیل/ صوبائی سطح پر ماہانہ مجلس ختم الصلوۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انعقاد ہو، ماہانہ دروس عرفان القرآن، عرفان الحدیث ہوں یا عرفان الفقہ یا عرفان التصوف، شیخ الاسلام کے خطابات و تصانیف سمیت دعوت کے جملہ تقاضے پورے کیے جائیں گے۔

آئیے ! نوجوانوں میں شاہینی صفات پیدا کرنے، کردار کی عظمت کو زندہ کرنے اور تعمیرِ شخصیت جیسے عظیم مقصد کے حصول کے لیے منہاج یوتھ لیگ کا حصہ بنیں اور ہر شعبہ میں قائدانہ کردار ادا کریں۔

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، اکتوبر 2018ء

تبصرہ