کارکنان کی فکری و نظریاتی تربیت

محمد رفیق نجم

تربیت عربی زبان کا لفظ ہے ،جس کا مطلب ادنیٰ کو کمال تک پہنچانا، کسی فرد کی پوشیدہ صلاحیتوں (POTENTIAL) کو نکھار کر اُسے پستی سے نکال کر کمال کی راہ کا مسافر بنا دینا، کمال کی راہ پر ڈال دینا اور فرد کی استعدادِ کار کو حرکت دے کر منزل کی طرف نئی رفتار سے گامزن کرنا ہے۔

مربیّ اپنے زیرِ تربیت افراد میں کوئی نئی چیز پیدا نہیں کرتا، بلکہ زیرِ تربیت فردکے اندر موجود صفات کو اس طرح ترتیب کے ساتھ پروان چڑھاتا ہے کہ وہ مطلوبہ مقصد حاصل کرسکے۔

تربیت کو مالی اور باغ کی مثال سے خوب اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔ مالی امرود کے پودے پر آم نہیں لگا سکتا بلکہ امرود کے پودے کو بتدریج موسمی حالات سے محفوظ رکھتا ہے۔ پانی اور خوراک کا مناسب مقدار اور مناسب اوقات میں بندوبست کرتا ہے۔ پودے کو مختلف بیماریوں سے بچانے کی تدبیر کرتا ہے، اگر بیماری لگ جائے تو اُس کے تدارک کی حتی الامکان کوشش کرتا ہے۔ پودے پر پھولوں سے لیکر پھل کے پکنے تک کے عمل کی مکمل نگرانی کرتاہے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کی تعلیم وتربیت کیلئے روزِ ازل سے ہی انتظام فرما دیا تھا۔ اس انسان کو خسارے سے نکال کر رشکِ ملائک بنانے تک کے سفر کیلئے ربِ کائنات نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر علیہم السلام اوراُن کے ساتھ تربیت کا سامان (زبور، انجیل، تورات اور قرآن مجید) بھی دیا۔ انبیاء علیہم السلام کے بعد یہ کام اولیاء کرام، علماء کرام، اساتذہ کرام اور دانش مندان کے سپرد ہوا۔

رب کائنات کی کمال شفقت یہ ہے کہ تربیت کی یہ ذمہ داری اس نے والدین اور بالخصوص ماں کے سپرد کی تاکہ بچے کو دنیا میں آتے ہی مربیّ نصیب ہوجائے۔ اسی لیے اقوام کی ترقی اور عروج کا راز قوم کی ماؤں کی تربیت سے جُڑا ہواہے۔ ماں کی گود کی تربیت بچے کی سوچ کی بلندی، حق گوئی، حسنِ اخلاق، عہدسے وفا، رزق کی طہارت اور معاشرتی اقدار کی پاس داری کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ اس پر اسلامی تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔

تحریک منہاج القرآن تجدید دین، احیائے اسلام ترویج و اقامتِ اسلام کی عالمی تحریک ہے۔ تحریک کے سرپرست اعلیٰ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے قرآن وسنت کی تعلیمات کے عین مطابق اپنے رفقائے کار کیلئے ایک منظم اور مربوط نظامِ تربیت کا حسین بندوبست فرمایا ہے کیونکہ منہاج القرآن کے گلشن میں کھلنے والے گلوں کی خوشبو اور ثمرات کے ذائقہ سے بھی بلندیٔ خیالات کا پتہ چلتا ہے۔ اس لئے کہ شیخ الاسلام نے بطورمربیّ اپنے اس کام کو بحسن و خوبی انجام دیا۔ جس کے نتائج پر ایک دنیا شاہدہے۔

نتیجہ خیزی کی ضمانت

یہ بات سچ ہے کہ زوال کا سبب اُمتِ مسلمہ کا اسلام پر عمل نہ کرنا ہے۔ عمل کا داعیہ یقین سے پیدا ہوتا ہے اور یقین مطلوبہ نتائج نہ ملنے کی وجہ سے ختم ہوا۔ اس صورت حال میں ضروری ہوا کہ انقلاب کیلئے کام کرنے والے کارکنان کی فکری ونظریاتی تربیت کی جائے تاکہ وہ کسی بھی طرح کی آزمائش میں ثابت قدم رہیں کیونکہ ثابت قدم رہنے والوں کے قدموں کوہی منزل بوسہ دیاکرتی ہے۔ فکری و نظریاتی تربیت کے بہت سے پہلو ہیں، جن پر شیخ الاسلام نے خصوصی توجہ فرمائی۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ایک طرف کارکنان کو ایک فکری واضحیت (conceptual clarity) دی یعنی مطلوبہ منزل کیا ہے اور ہم کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ اور اسی طرح دوسری طرف شیخ الاسلام نے فکری طور پر کارکنان کو اس تصور سے آشنا کیا اور قرآن وسنت کی روشنی میں اپنی تحریر اور تقریر کے ذریعہ سے ثابت کیا کہ غلبۂ دینِ حق کے لیے کی جانے والی جدوجہد ہر صورت نتیجہ خیز ہوگی۔

اس پر شیخ الاسلام نے قرآن مجید سے انبیاء کرام علیہم السلام کے مقاصدِ بعثت اور پیغمبرانہ جدوجہد کی نتیجہ خیزی پر تفصیلی گفتگو فرمائی ہے جو قرآن فلسفہ انقلاب میں مذکور ہے۔ اس کتاب میں شیخ الاسلام نے جدوجہد کی نتیجہ خیزی کے حوالے سے نبی رحمت ﷺ کی سیرت مطہرہ سے دلائل دیئے ہیں۔ شیخ الاسلام نے اپنی اس انقلابی تصنیف میں ایک انتہائی روح پرور عنوان قائم کیا ہے کہ ’’تاریخِ انبیاء علیہم السلام کامیابیوں کی تاریخ ہے۔‘‘

مقصدیت کا شعور

تحریک منہاج القرآن کے قیا م کا مقصد عالمگیر سطح پر دین کی بحالی، اسلام کی نشأۃِ ثانیہ اور ملتِ اسلامیہ کا احیاء اور اتحاد ہے جبکہ ہر سطح پر باطل اور طاغوتی طاقتوں کے خلاف غیر مصالحانہ انقلابی جدوجہد اس کا لائحہ عمل ہے۔ تحریک کا یہ مقصد قرآن مجید کی اس آیت سے لیا گیا ہے:

هُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّهٖ وَلَوْ کَرِهَ الْمُشْرِکُوْنَ.

(الصف، 61: 9)

’’وہی ہے جس نے اپنے رسول (ﷺ) کو ہدایت اور دینِ حق دے کر بھیجا تاکہ اسے سب ادیان پر غالب و سربلند کردے خواہ مشرک کتنا ہی ناپسند کریں۔‘‘

اس آیت سے واضح ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ کا مقصدصرف مکمل نظامِ حیات فراہم کر دینا ہی نہیں تھا بلکہ اس نظامِ حیات کو باطل اور طاغوت کی طرف سے آنے والی تمام رکاوٹوں کے باوجود سیاسی طورپر غالب کرنا تھا۔ جس کو تاجدار کائنات ﷺ نے اپنی عملی کاوشوں کے ذریعہ نافذکر کے دکھایا تاکہ اُمت کے لیے یہ کارِ خیر بھی سنت ٹھہرے۔

احساسِ ذمہ داری

مقصد کا شعور حاصل ہونے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس مقصد کے حصول کی ذمہ داری کس کی ہے؟ چونکہ یہ کام انفرادی سطح کا نہیں بلکہ اجتماعی سطح کا ہے۔ لہذا اس اجتماعی کام کی نتیجہ خیزی کیلئے ایک بڑی جماعت، تحریک، تنظیم کو اپنا کردار ادا کرناہے،جب یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ مقصد انفرادی کاوش سے حاصل نہیں ہوسکتا تو لازم ہوجاتا ہے کے شعورِ مقصد کا حامل فرد تنظیم اور تحریک کا حصہ ضروربنے اور پھر حصولِ مقصد کے لیے جماعت اور تنظیم کے اندر رہ کر اپنی ذمہ داریاں ادا کرے۔ کیونکہ:

فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرونِ دریا کچھ نہیں
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

تحریک منہاج القرآن کا فکری و نظریاتی تربیت کا لائحہ عمل

تحریک منہاج القرآن کے رفقاء و کارکنان کی بالخصوص اور عامۃ الناس کی بالعموم فکری و نظریاتی تربیت کا اہتمام اولین سطح پر تنظیمی سطح پر شروع کیا گیا جو اب بھی جاری وساری ہے۔ فکری ونظریاتی پختگی کے بنیادی ذرائع قرآن اور صاحبِ قرآن ہیں۔ ان سے مسلسل زندہ تعلق تربیت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اس کیلئے تحریک کے ہر کارکن کیلئے لازم ہے کہ وہ روزانہ کم از کم ایک رکوع کی تلاوت مع ترجمہ عرفان القرآ ن اور کم از کم 100 مرتبہ درود و سلام کا وظیفہ کرے۔ یہ ایسا اہتمام ہے جس کے ذریعہ سے کارکن کی فکر کا دھارا صحیح سمت میں بہتا ہے اور یہ عمل ذہنی کشادگی کا موجب بھی ہے۔

1۔ ہفتہ وار حلقاتِ درود و فکر

تحریک منہاج القرآن کے زیرِ انتظام حلقاتِ درود و فکر میں افراد ایک مقام پر جمع ہوکر حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں درود پاک پڑھتے ہیں اور شیخ الاسلام کا خطاب سنتے ہیں۔ یہ محلے اور گلی کی سطح پر کی جانے والی اجتماعی تربیت کا حصہ ہے۔

2۔ ماہانہ شب بیداری

یہ تحصیل اور صوبائی حلقہ کی سطح پرکی جانے والی ایک بڑی تربیتی نشست ہے۔جس میں تنظیم کی تنظیمی تربیت کے ساتھ ساتھ فکری ونظریاتی تربیت کا وافر سامان میسر آتا ہے۔

3۔ شہر اعتکاف

تحریک منہاج القرآن کا شہراعتکا ف دنیائے اسلام کی منفرد تربیت گاہ ہے، جس میں مربیّ اپنے کارکنان کی تربیت براہ راست کرتا ہے۔ یہ تربیت گاہ پورے عشرے پر محیط ہوتی ہے۔ مختلف رنگ، نسل، علاقہ، زبان اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے واے افراد ایک چھت کے نیچے جمع ہوتے ہیں۔ اُن کا آپس میں پیار اور تعلق مربیّ کی اعلی فکری ونظریاتی تربیت کی عکاسی کررہا ہوتا ہے۔ اس موقع پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کارکنان کو قرآن مجید، سنت مبارکہ، محبتِ اہلِ بیت اور صحابہ کرام کے جام بھر بھر کے پلارہے ہوتے ہیں۔

تحریک منہاج القرآن کے اس نظامِ تربیت کا فیض ہے کہ دنیا آج ورطہ حیرت میں ہے کہ جب زمانۂ حرج ہے اور ہرکوئی ایک دوسرے کے درپے ہے، منہاج القرآن کے کارکنان آپس میں سیسہ پلائی دیوار کیسے بنے ہوئے ہیں۔

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، اکتوبر 2021ء

تبصرہ